ام المومنین حضرت سیدہ خدیجة الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا ہے۔ نبی کریم کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنتِ زاہدہ ہےعلامہ منیر احمد یوسفی:
آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا ہے۔ نبی کریم کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنتِ زاہدہ ہے۔ آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ مکہ مکرّمہ میں سکونت اختیار کی اور بنو عبدالدار کے حلیف بنے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نکاح عامر بن لوی کے خاندان میں ہوا۔ ان کے بطن سے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جب جوان ہوئیں تو ان کے والدین نے ان کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے کی۔ ان سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہند تھا اور دوسرے کانام حارث۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہند نے اوّل اسلام قبول کیا۔ نہایت فصیح و بلیغ تھے۔ امیر المومنین حضرت سیّدنا علی کے ساتھ جنگ جمل میں شریک رہے اور شہید ہوئے۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں۔ مکارم اخلاق کا پیکر جمیل تھیں۔ رحمدلی ‘ غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں۔
حضرت ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورمضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔ جتنا سامان تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اتنا اکیلے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہوتا۔ آپ اپنے نمائندوں کو سامان تجارت دے کر روانہ فرماتیں۔جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے اس کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے ان کی اجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو انہیں دی جاتی‘ نفع و نقصان سے انہیں کوئی سروکار نہ ہوتا یا نفع میں ان کا کوئی حصہ‘ نصف‘ تہائی یا چوتھائی مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے۔ بصورت نقصان ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوتی۔
حضرت ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو رسول کریم ﷺ کی راست گفتاری‘ امانت اور نیک کرداری کا علم ہوا۔ انہوں نے آپ سے درخواست کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں۔ میں اب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اس سے بہت زیادہ آپ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کر دوں گی۔ آپ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور ان کا مال لے کر روانہ ہوئے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام بھی ان کے ساتھ تھا۔ دونوں شام آئے‘ وہاں نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے۔ راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جو درخت کے نیچے اتری ہیں یہ کون ہیں؟ اس نے کہا‘ یہ اہل حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ امانتداراور سچے انسان ہیں۔ راہب نے کہا ان کی آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا ‘ہاں یہ سرخی کبھی ان سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہایہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبر ہیں۔ (طبقات ابن سعد)
راہب نے کہااس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہ ﷺ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسول کریم ﷺنے یہاں جو مال لائے تھے بیچ دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ آپ مکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہر اور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیا دیکھتا ہے کہ آپ اونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپ کو تمازت آفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے دِلنشین ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں نبی کریم کی ایسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریمﷺ کا غلام بن گیا۔
جب قافلے نے اپنا تجارتی سامان فروخت کرکے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ وہ واپس چلے تو مقام مرالظہران میں پہنچ کے میسرہ نے عرض کیا یا محمد(ﷺ) آپ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس چل دیجئے۔ آپ کے باعث حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے نفع دیا ہے اس کی حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع کیجئے۔ وہ آپ کا حق یاد رکھیں گی۔ رسول کریم ﷺاس رائے کے مطابق پہلے روانہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بالا خانے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔دیکھا کہ رسول کریم اونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر ادھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اس دِلکش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اس نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے و ہ باتیں بھی کہہ دیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا۔ تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البدایہ والنہایہ)
اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خوا ب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب ان کے گھر میں اتر آیا ہے اور اس کا نور ان کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جو اس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخرالزماں تم سے نکاح کریں گے۔
حضرت جبرا ئیل جب پہلی وحی لے کر آئے اورسورة العلق کی آیات پڑھی۔ رسول کریم ان آیات مبارکہ کو لے کر لوٹے آپ کا قلب مضطرب تھا۔ آپ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ نے فرمایا: مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ حتیٰ کہ آپ کا اِضطراب جاتا رہا۔ آپ نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرشتے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے ارشادمبارک فرمایا! مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں عرض کیا: ”نہیں نہیں آپ کو ڈر کاہے کا۔ بخدااللہ آپ کو ہر ایک مشقت سے بچائے گا۔ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں درماندوں کی دستگیری کرتے ہیں تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اصلی مصیبت زدوں کی امداد فرماتے ہیں۔“ (بخاری حدیث نمبر 3)
حضرت ابو طالب کی وفات کے چند ہی روز تقریباً 35 دن بعد 10 رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا وصال فرما گئیں۔ آپ کے دونوں مددگار اور غمگسار اٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جو اسلام کے لئے سخت ترین تھا۔ خود نبی کریمﷺ اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا کرتے تھے۔اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے 65 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حجون کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔ ابھی تک نماز جنازہ کا آغاز نہیں ہوا تھا جب مرقد پاک تیار ہوگئی تو حضور نبی کریم ﷺخود اس میں تشریف لے گئے پھر اس قبر انور میں حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ا للہ کے سپرد فرما دیا۔
خراجِ شفقت :
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ آپ ﷺ نے ان الفاظ میں اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خراجِ شفقت عطا فرمایا : ”وہ مجھ پر ایمان لائیں جب اوروں نے کفر کیا۔ اس نے میری تصدیق کی جبکہ اوروں نے مجھے جھٹلایا اس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور مجھے کسبِ مال سے روکا۔ اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی جبکہ کسی دوسری بیوی سے نہ ہوئی ۔( الاستعیاب‘ رحمة اللعالمین جلد 2‘ سیرت النبی جلد 2)
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ پہلی عظیم خاتونِ اوّل ہیں جن پر اسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور انہوں نے حضور نبی کریم کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال رسول کریم ﷺکی رضاکی خاطر خرچ کیا۔
آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا ہے۔ نبی کریم کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنتِ زاہدہ ہے۔ آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ مکہ مکرّمہ میں سکونت اختیار کی اور بنو عبدالدار کے حلیف بنے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نکاح عامر بن لوی کے خاندان میں ہوا۔ ان کے بطن سے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جب جوان ہوئیں تو ان کے والدین نے ان کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے کی۔ ان سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہند تھا اور دوسرے کانام حارث۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہند نے اوّل اسلام قبول کیا۔ نہایت فصیح و بلیغ تھے۔ امیر المومنین حضرت سیّدنا علی کے ساتھ جنگ جمل میں شریک رہے اور شہید ہوئے۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں۔ مکارم اخلاق کا پیکر جمیل تھیں۔ رحمدلی ‘ غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں۔
حضرت ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورمضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔ جتنا سامان تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اتنا اکیلے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہوتا۔ آپ اپنے نمائندوں کو سامان تجارت دے کر روانہ فرماتیں۔جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے اس کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے ان کی اجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو انہیں دی جاتی‘ نفع و نقصان سے انہیں کوئی سروکار نہ ہوتا یا نفع میں ان کا کوئی حصہ‘ نصف‘ تہائی یا چوتھائی مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے۔ بصورت نقصان ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوتی۔
حضرت ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو رسول کریم ﷺ کی راست گفتاری‘ امانت اور نیک کرداری کا علم ہوا۔ انہوں نے آپ سے درخواست کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں۔ میں اب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اس سے بہت زیادہ آپ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کر دوں گی۔ آپ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور ان کا مال لے کر روانہ ہوئے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام بھی ان کے ساتھ تھا۔ دونوں شام آئے‘ وہاں نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے۔ راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جو درخت کے نیچے اتری ہیں یہ کون ہیں؟ اس نے کہا‘ یہ اہل حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ امانتداراور سچے انسان ہیں۔ راہب نے کہا ان کی آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا ‘ہاں یہ سرخی کبھی ان سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہایہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبر ہیں۔ (طبقات ابن سعد)
راہب نے کہااس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہ ﷺ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسول کریم ﷺنے یہاں جو مال لائے تھے بیچ دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ آپ مکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہر اور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیا دیکھتا ہے کہ آپ اونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپ کو تمازت آفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے دِلنشین ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں نبی کریم کی ایسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریمﷺ کا غلام بن گیا۔
جب قافلے نے اپنا تجارتی سامان فروخت کرکے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ وہ واپس چلے تو مقام مرالظہران میں پہنچ کے میسرہ نے عرض کیا یا محمد(ﷺ) آپ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس چل دیجئے۔ آپ کے باعث حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے نفع دیا ہے اس کی حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع کیجئے۔ وہ آپ کا حق یاد رکھیں گی۔ رسول کریم ﷺاس رائے کے مطابق پہلے روانہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بالا خانے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔دیکھا کہ رسول کریم اونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر ادھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اس دِلکش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اس نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے و ہ باتیں بھی کہہ دیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا۔ تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البدایہ والنہایہ)
اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خوا ب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب ان کے گھر میں اتر آیا ہے اور اس کا نور ان کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جو اس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخرالزماں تم سے نکاح کریں گے۔
حضرت جبرا ئیل جب پہلی وحی لے کر آئے اورسورة العلق کی آیات پڑھی۔ رسول کریم ان آیات مبارکہ کو لے کر لوٹے آپ کا قلب مضطرب تھا۔ آپ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ نے فرمایا: مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ حتیٰ کہ آپ کا اِضطراب جاتا رہا۔ آپ نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرشتے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے ارشادمبارک فرمایا! مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں عرض کیا: ”نہیں نہیں آپ کو ڈر کاہے کا۔ بخدااللہ آپ کو ہر ایک مشقت سے بچائے گا۔ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں درماندوں کی دستگیری کرتے ہیں تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اصلی مصیبت زدوں کی امداد فرماتے ہیں۔“ (بخاری حدیث نمبر 3)
حضرت ابو طالب کی وفات کے چند ہی روز تقریباً 35 دن بعد 10 رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا وصال فرما گئیں۔ آپ کے دونوں مددگار اور غمگسار اٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جو اسلام کے لئے سخت ترین تھا۔ خود نبی کریمﷺ اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا کرتے تھے۔اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے 65 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حجون کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔ ابھی تک نماز جنازہ کا آغاز نہیں ہوا تھا جب مرقد پاک تیار ہوگئی تو حضور نبی کریم ﷺخود اس میں تشریف لے گئے پھر اس قبر انور میں حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ا للہ کے سپرد فرما دیا۔
خراجِ شفقت :
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ آپ ﷺ نے ان الفاظ میں اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خراجِ شفقت عطا فرمایا : ”وہ مجھ پر ایمان لائیں جب اوروں نے کفر کیا۔ اس نے میری تصدیق کی جبکہ اوروں نے مجھے جھٹلایا اس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور مجھے کسبِ مال سے روکا۔ اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی جبکہ کسی دوسری بیوی سے نہ ہوئی ۔( الاستعیاب‘ رحمة اللعالمین جلد 2‘ سیرت النبی جلد 2)
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ پہلی عظیم خاتونِ اوّل ہیں جن پر اسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور انہوں نے حضور نبی کریم کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال رسول کریم ﷺکی رضاکی خاطر خرچ کیا۔
Post a Comment
Thanks For Your Feed Back