خاتون جنت کی بہادر بیٹی
حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔۔۔۔ صدہاایسی صحیح احادیث موجود ہیں جس میں اہل بیعت رسولﷺ سے محبت کرنے اور ان کاادب ملحوظ خاطر رکھنے کاحکم دیاگیاہے۔بے شک اہل بیعت رسول کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ حضورﷺ کی رسالت کااجرنہیںعاشق حسین صدیقی
قرآن وحدیث کے مطابق حضور پرنور،سرورعالم،خاتم النبیین جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کے جملہ قرایت واروں،خاندان ،جوہاشم باالخصوص اہل بیت کرام کی محبت اور ان کاادب واحترام ایمان ہے جس کے دل میں اہل بیت رسول کی محبت نہیں اس کی ایمان کی شمع بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں بھٹک رہاہے۔صدہاایسی صحیح احادیث موجود ہیں جس میں اہل بیعت رسولﷺ سے محبت کرنے اور ان کاادب ملحوظ خاطر رکھنے کاحکم دیاگیاہے۔بے شک اہل بیعت رسول کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ حضورﷺ کی رسالت کااجرنہیں بلکہ یہ شجرایمان کاثمر ہے جہاں ایمان ہوگاوہاں جب آل رسولﷺ ضرور ہوگی۔
اہل بیعت رسول اسلام کے ستون اور شریعت کی پابندی کے ذریعے ہیں۔ان کی برکت سے دنیا میں توحید اور حق کی بنیاد نئے سرے سے قائم ہوئی اور شرک وباطل اپنی جگہ سے ہلے۔جملہ اہل بیعت رسول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چمکتے ہوئے نگینے ہیں۔ان میں ایک نگینہ حضور نبی کریم ﷺ کی نواسی امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اورسیدہ النساء حضرت فاطمة الزھرہ رضی اللہ عنہا کی بڑی صاحبزادی اور تاریخ اسلام کی محترم شخصیت حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت5جمادی الاول5ہجری میں مدینہ شریف میں ہوئی۔ولادت کے وقت رسول کریمﷺ مدینہ شریف سے باہر کسی سفرپر تھے۔ولادت کے تیسرے دن رسول کریمﷺ مدینہ شریف واپس آئے اور جب عادت سب سے پہلے اپنی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمةالزھرہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے۔نومولودبچی کوسینے سے لگاکرپیار کیا،آپﷺ بہت خوش ہوئے آپ کانام زینب رضی اللہ عنہا رکھا۔زین کا مطلب زینت یاباپ کازیور۔اس موقع پر آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ جویہاں موجود ہیں اور جو یہاں موجود نہیں ہیں اس بچی کااحترام کریں کیونکہ اس بچی کی شکل وصورت اپنی نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے ملتی ہے۔انہیں عقیلہ بنو ہاشم کہاجاتا تھا۔ام کلثوم اورام الحسن آپ کنیت تھی۔ولادت کے ساتویں دن رسول کریمﷺ آپ رضی اللہ عنہ کاعقیقہ فرمایا۔آپ ابھی چھ سات برس کی تھیں کہ والدہ محترمہ حضرت فاطمةالزھرا رضی اللہ عنہا وصال فرماگئیں۔اس کے بعد آپ کوحضرت ام البنین رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء جیسی بلندپایہ خواتین کے ساتھ رہنے کااتفاق ہوا۔
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی بڑی تعظیم فرماتے جب وہ آتیں تو آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگی پر بٹھاتے۔بڑی صاحبزادی ہونے کہ بناء پر گھر کے تمام معاملات کی ذمہ داری آپ کے سپرد تھی۔رسول کریمﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دینی تربیت حاصل کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اہم گھرانوں کی خواتین نے اپنے خاوندوں کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ حضرت بی بی زینب سے دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔اپنے والد حضرت علی کے حکم سے آپ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی خواتین کودرس دیتیں اور قرآن پاک کی تفسیر پڑھاتیں۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی پھوپھی جان حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں بسرکی۔آپ رضی اللہ عنہ کی دینی وعلمی بصیرت اور غیر معمولی ذہانت کی بدولت آپ کو عقیلہ بنوہاشم کے لقب سے یادکیاجاتاتھا۔17ویں ہجری میں آپ کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی اور رسول کریمﷺ کے چچیرے بھائی حضرت جعفر طیار بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ کے دوران پیداہوئے تھے۔حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ عرب کے مشہور جواود کریم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانثار تھے۔
حضرے بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جو اولادہوئی دن کے نام علی، عون،اکبر،عباس،ام کلثوم،جعفر اکبرمحمد ہیں۔عون ومحمد61ہجری میں امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدان کربلاء میں شہید ہوئے۔میدان کربلا میں حضرت بی بی زنیب رضی اللہ عنہا کاکردار عظمت کی بلندیوں پرنظرآتا ہے سانحہ کربلاء کے بعد آپ نے نہایت صبراور شجاعت ست اہل بیعت کی خواتین اور بچوں کی حفاظت فرمائی۔ان کاحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور وہاں سے کربلا تک کاسفر ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔
10محرم61ہجری کی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد یتیموں بیواؤں بچوں،جوانوں،عورتوں اور مردوں کی نگرانی،دشمنوں کے مقابلے میں صبروتحمل کامظاہرہ لٹے ہوئے قافلے کاقید ہونا،کوفہ میں ان کی الاجواب تقریریں ،عبداللہ بن زیاد کی گستاخیوں کا جواب۔ اس کے بعد شام کاسفر،شام کے بازاروں اور یزید کے دربار میں اپنی حفانیت اور واقعات کربلا کااعلان فصیح وبلیغ خطبے اور برحستہ جوابات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے ہوں۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کوابن زیادکے بے رحم ہاتھوں سے بچاتا بھی ان کااہم کارنامہ ہے۔ومشق میں اہل بیت کے ساتھ قیدرہیں۔ومشق سے رہاہوکر مدینہ تشریف لائیں اور واقعات کربلا کومئوثرانداز میں بیان فرمایا۔پھر آپ کومدینہ میں بھی آپ کوچین سے نہ رہنے دیا گیا اور مصر ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔وہاں سے آپ کو ایک بار پھر گرفتار کرکے شام لایا گیا۔دمشق میں ایک بدبخت شامی نے حملہ کرکے آپ کوشہید کردیا۔آپ رضی اللہ عنہ کے خاوند حضرت عبداللہ بن جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے وہیں زمین خرید کرآپ کو دفن فرمادیا۔ آپ کامزار مبارک تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے عقیدت واحترام کامقام ہے۔
قرآن وحدیث کے مطابق حضور پرنور،سرورعالم،خاتم النبیین جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کے جملہ قرایت واروں،خاندان ،جوہاشم باالخصوص اہل بیت کرام کی محبت اور ان کاادب واحترام ایمان ہے جس کے دل میں اہل بیت رسول کی محبت نہیں اس کی ایمان کی شمع بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں بھٹک رہاہے۔صدہاایسی صحیح احادیث موجود ہیں جس میں اہل بیعت رسولﷺ سے محبت کرنے اور ان کاادب ملحوظ خاطر رکھنے کاحکم دیاگیاہے۔بے شک اہل بیعت رسول کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ حضورﷺ کی رسالت کااجرنہیں بلکہ یہ شجرایمان کاثمر ہے جہاں ایمان ہوگاوہاں جب آل رسولﷺ ضرور ہوگی۔
اہل بیعت رسول اسلام کے ستون اور شریعت کی پابندی کے ذریعے ہیں۔ان کی برکت سے دنیا میں توحید اور حق کی بنیاد نئے سرے سے قائم ہوئی اور شرک وباطل اپنی جگہ سے ہلے۔جملہ اہل بیعت رسول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چمکتے ہوئے نگینے ہیں۔ان میں ایک نگینہ حضور نبی کریم ﷺ کی نواسی امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اورسیدہ النساء حضرت فاطمة الزھرہ رضی اللہ عنہا کی بڑی صاحبزادی اور تاریخ اسلام کی محترم شخصیت حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت5جمادی الاول5ہجری میں مدینہ شریف میں ہوئی۔ولادت کے وقت رسول کریمﷺ مدینہ شریف سے باہر کسی سفرپر تھے۔ولادت کے تیسرے دن رسول کریمﷺ مدینہ شریف واپس آئے اور جب عادت سب سے پہلے اپنی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمةالزھرہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے۔نومولودبچی کوسینے سے لگاکرپیار کیا،آپﷺ بہت خوش ہوئے آپ کانام زینب رضی اللہ عنہا رکھا۔زین کا مطلب زینت یاباپ کازیور۔اس موقع پر آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ جویہاں موجود ہیں اور جو یہاں موجود نہیں ہیں اس بچی کااحترام کریں کیونکہ اس بچی کی شکل وصورت اپنی نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے ملتی ہے۔انہیں عقیلہ بنو ہاشم کہاجاتا تھا۔ام کلثوم اورام الحسن آپ کنیت تھی۔ولادت کے ساتویں دن رسول کریمﷺ آپ رضی اللہ عنہ کاعقیقہ فرمایا۔آپ ابھی چھ سات برس کی تھیں کہ والدہ محترمہ حضرت فاطمةالزھرا رضی اللہ عنہا وصال فرماگئیں۔اس کے بعد آپ کوحضرت ام البنین رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء جیسی بلندپایہ خواتین کے ساتھ رہنے کااتفاق ہوا۔
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی بڑی تعظیم فرماتے جب وہ آتیں تو آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگی پر بٹھاتے۔بڑی صاحبزادی ہونے کہ بناء پر گھر کے تمام معاملات کی ذمہ داری آپ کے سپرد تھی۔رسول کریمﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دینی تربیت حاصل کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اہم گھرانوں کی خواتین نے اپنے خاوندوں کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ حضرت بی بی زینب سے دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔اپنے والد حضرت علی کے حکم سے آپ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی خواتین کودرس دیتیں اور قرآن پاک کی تفسیر پڑھاتیں۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی پھوپھی جان حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں بسرکی۔آپ رضی اللہ عنہ کی دینی وعلمی بصیرت اور غیر معمولی ذہانت کی بدولت آپ کو عقیلہ بنوہاشم کے لقب سے یادکیاجاتاتھا۔17ویں ہجری میں آپ کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی اور رسول کریمﷺ کے چچیرے بھائی حضرت جعفر طیار بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ کے دوران پیداہوئے تھے۔حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ عرب کے مشہور جواود کریم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانثار تھے۔
حضرے بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جو اولادہوئی دن کے نام علی، عون،اکبر،عباس،ام کلثوم،جعفر اکبرمحمد ہیں۔عون ومحمد61ہجری میں امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدان کربلاء میں شہید ہوئے۔میدان کربلا میں حضرت بی بی زنیب رضی اللہ عنہا کاکردار عظمت کی بلندیوں پرنظرآتا ہے سانحہ کربلاء کے بعد آپ نے نہایت صبراور شجاعت ست اہل بیعت کی خواتین اور بچوں کی حفاظت فرمائی۔ان کاحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور وہاں سے کربلا تک کاسفر ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔
10محرم61ہجری کی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد یتیموں بیواؤں بچوں،جوانوں،عورتوں اور مردوں کی نگرانی،دشمنوں کے مقابلے میں صبروتحمل کامظاہرہ لٹے ہوئے قافلے کاقید ہونا،کوفہ میں ان کی الاجواب تقریریں ،عبداللہ بن زیاد کی گستاخیوں کا جواب۔ اس کے بعد شام کاسفر،شام کے بازاروں اور یزید کے دربار میں اپنی حفانیت اور واقعات کربلا کااعلان فصیح وبلیغ خطبے اور برحستہ جوابات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے ہوں۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کوابن زیادکے بے رحم ہاتھوں سے بچاتا بھی ان کااہم کارنامہ ہے۔ومشق میں اہل بیت کے ساتھ قیدرہیں۔ومشق سے رہاہوکر مدینہ تشریف لائیں اور واقعات کربلا کومئوثرانداز میں بیان فرمایا۔پھر آپ کومدینہ میں بھی آپ کوچین سے نہ رہنے دیا گیا اور مصر ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔وہاں سے آپ کو ایک بار پھر گرفتار کرکے شام لایا گیا۔دمشق میں ایک بدبخت شامی نے حملہ کرکے آپ کوشہید کردیا۔آپ رضی اللہ عنہ کے خاوند حضرت عبداللہ بن جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے وہیں زمین خرید کرآپ کو دفن فرمادیا۔ آپ کامزار مبارک تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے عقیدت واحترام کامقام ہے۔
Post a Comment
Thanks For Your Feed Back